چھٹے گے بادل تو آسماں کھلے گا
وسعتوں کو نیا اک راستہ ملے گا
قید میں ہے نفس کی حیات
ٹوٹیں گی زنجیریں گل نیا کھلے گا
آندھیؤں سے آگہی کی
تحت جہالت کا ہلے گا
کسی رفو گر کی تلاش ہے
گریباں چاک تبھی تو سلے گا
بت بنی بے بسی کی مورتیں
کوی مرد آہن تو قفل یہ کھلے گا
جلاؤ چراغ شعور ہر طرف
انقلاب نو سے اندھیرا یہ مٹے گا