اٌن کی ہی یاد کا دِیا دل میں جلا ہوا
اشکوں کے موتیوں سےتو چہرہ سجا ہوا
چشمِ کرم سے اُن کی مقدّر سنور جائے
جیسے بہار میں تو چمن ہی کِھلا ہوا
بلبل سے کوئی پوچھے محبت کی داستاں
سب کچھ لٹا کے گل پہ نہ کچھ بھی گِلہ ہوا
پروانوں کو خِرد سے نہ مطلب بھی ہے کوئی
دل کی صدا پہ خود کو مٹانا رَوا ہوا
آساں نہیں ہے دل میں کسی کو بسا لینا
دل میں تو غیر کا ہی تأثر جما ہوا
کشتی پھنسی بھنور میں کنارا نہ مل سکا
اُن سے کبھی جو اپنا تعلق جدا ہوا
اُن کے سِوا کسی کا تصور نہ اثر کو
الفت میں اُن کی خود کو مٹا کر بھلاہوا