اک سوچ عقل سے پھسل گئی
مجھے یاد تھی کے بدل گئی
میری سوچ تھی کے وہ خواب تھا
میری زندگی کا حساب تھا
میری جستجو کے برعکس تھی
میری مشکلوں کا وہ عکس تھی
مجھے یاد ہو تو وہ سوچ تھی
جو نہ یاد ہو تو وہ گمان تھا
مجھے بیٹھے بیٹھے گماں ہوا
گماں نہیں تھا خدا تھا وہ
وہ خدا کے جس نے زبان دی
مجھے دل دیا مجھے جان دی
وہ زبان جسے نہ چلا سکو
وہ دل جسے نہ منا سکو
وہ چاہ جسے نہ لگا سکوں
کبھی مل تو تجھ کو بتائے ہم
تجھے اس طرح سے ستائیں ہم
تیرا عشق تجھ سے ہی چھین کے
تجھے مے پلا کے رلائے ہم
تجھے درد دو تو نہ سہ سکے
تجھے دو زباں تو نہ کہہ سکے
تجھے دوں مکاں تو نہ رہ سکے
تجھے مشکلوں میں گھرا کے
میں ایسا رستا نکال دوں
تیرے درد کی میں دوا کرہ
کسی غرض کے میں سوا کرو
تجھے ہر نظر پہ عبور دوں
تجھے زندگی کا شعور دوں
کبھی مل بھی جائے گے غم نہ کر
ہم گر بھی جائے گے غم نہ کر
تیرے ایک ہونے میں شک نہیں
میری نیتوں کو تو صاف کر
تیری شان میں بھی کمی نہیں
میرے اس کلام کو معاف کر