پہلو میں تم جب تک رہے خود سے جدا بھی ہم رہے
پر خامشی کے شور میں دل کی صدا بھی ہم رہے
جو لکھ رہے ہیں جاوداں الفت کی ہم یہ داستاں
وہ ابتدا بھی ہم ہی تھے وہ انتہا بھی ہم رہے
ہر ہر مقامِ شوق پہ اک آزمائش تھی کھڑی تھی
طوفان کی زد میں بھی آئے نا خدا بھی ہم رہے
اکثر رہے ہیں مست ہم عشق و جنوں کی قید میں
رسمِ رہِ دنیا بھی تھی اہلِ رضا بھی ہم رہے
اک شمع کی صورت جلے چپ چاپ اپنی آگ میں
جو چھپ گئے دل میں تیرے وہ گم شدہ بھی ہم رہے