اک پل
زمانے کی اس روش میں
اک آس رہی ہے
کہ کاش
اس عمر رواں میں
اک پل
میرا بھی ہوتا
جو مجھ میں
میرے رنگ بھرتا
وہ پل
میرا گھر
اور سماج ہوتا
میرے ہر درد کا
علاج ہوتا
وہ میری زندگی کا
جوبن ہوتا
اور تپتے صحرا میں
ساون ہوتا
مگر نجانے وہ اک پل
زندگی کی کتاب میں
لکیروں کے حساب میں
لکھا ہے کہ
مٹا ہے
مگرآ س ہے
کہ کاش
اس عمر رواں میں
اک پل
میرا بھی ہوتا