وہ سرد رات
اور خاموشی کا ھر سو پہرہ
لرزتے کانپتے پاؤں سے
ایک مسافر
سائیں سائیں کرتی
ھواؤں کے دوش پر
منزلوں سے دور کہیں
زندگی سے تھکے ھوئے
ایک دوشیزہ کے نازک
وجود کا سہارہ لئے
آج پہنچا ھے آخری سانس پر
اور وہ سوچتا ھے کیا کیا اس نے
اور کیا نہ کیا
اور خود کی تلاش میں
خود کو ھی بھول بیٹھا
وہ اپنی خامیوں سے الجھ کر رہ گیا
اور خوبیوں میں بٹھکتا رہ گیا
اب کیا وہ اور کیا اسکی حسرتیں
کیا امنگیں اور کیا نفرتیں
کیا محبتیں اور کیا وصیتیں
وہ تو پیا سا تھا پیاسا رہ گیا
مگر اس دنیا کو دنیا د ے گیا
وہ اپنے پیچھے نام لیواء
چھوڑ گیا
وہ ایک سلسلے کو
جوڑ گیا
اس کا جیون رائیگاں تو نہ تھا