وہ مجھ سے کہہ کر چلا گیا یہ
کہ زندگی یہ ستا رہی ہے
خیال ماضی کے یاد کر کے
گۓ دنوں کو بلا رہی ہے
یہ ساری فکروں میں ڈالتی ہے
غموں کو صدیوں نہ ٹالتی ہے
ہمیں مصیبت میں ڈال کر یہ
کام بنتے بگاڑتی ہے
میں تھک گیا ہوں اب اِس سفر سے
نہیں سکت اِن دُکھوں کی اب سے
کہو کوئ اب تو زندگی سے
ذرا سا ہم پہ بھی رحم کھاۓ
گۓ ہوؤں کو منا کے لاۓ
غموں کو خوشیوں کا رنگ چڑھاۓ
نہ ہمکو بس اب اور ستاۓ
قبول ہو گر تو ساتھ دینا
نہیں تو تنہا ہی چھوڑ دینا
یہ طے ہوا اب اے زندگی پھر
کہ سفر تیرا ختم ہوا ہے
میں موت کو اب ملوں ذرا تو
تیرے دُکھوں کو پرکھ گیا ہوں
کے چلتے چلتے تیرے سفر میں
اے زندگی تجھ سے تھک گیا ہوں