اے ساتھی مجھے اڑنے دے
کسی شاخ پر کھلنے دے
میں ہوں اک زرہ زمین کا
مجھے آسمان بس بننے دے
بہت رو لیا اب تو برسوں سے
مجھے اب کھل کے ہسنے دے
بے وجہ کب سے اجڑ رہی ہوں
اے تقدیر اب تو مجھے بسنے دے
تھم گئی ہوں ُدکھوں کے سمندر میں
مجھے کناروں سے اب ملنے دے
نہیں ُرکنا اب تیرے جھوٹے وعدوں پر
میں چل رہی ہوں مجھے چلنے دے
جانتی ہوں کانٹوں کا جہاں ہے مگر
مجھے گلاب کی طرح کھلنے دے
تیری ُجدائی کا روگ ہر شب جلاتا ہے
نہیں آنا تو پھر مجھے جلنے دے
مرنا تو ہیں ہی ہے اک دن لکی
اگر تجھ پر مر جاؤں تو مجھے مرنے دے