اے میرے منصف
یہ تو نےجسطرح انصاف کا پلڑا اٹھایا ہے
اسی سے میرے قاتل کو جفا کا زعم آیا ہے
اسی کا بار گرتا ہے میری بے ربط سانسوں پر
اسی نے میری ہر آوازکو نعرہ بنایا ہے
تمہیں خبر ہے
ترے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلں فروخت کر کے
بچا کہ اپنے فرات سارے، میری سبیلیں فروخت کر کے
مجھے یہ پیغام دے دیا ہے
کہ اپنے ’وانی‘ تیار کر لو
جو تجھکو تیرا پتہ بتائے وہ اک نشانی تیار کر لو
سجا کہ مقتل، لٹا کہ گوہر، تم وہ کہانی تیار کر لو
کہ جو سنے وہ دہل سا جائے
کہ جو سنائے وہ جاں بلب ہو
کہ جس جگہ پر سنائی جائے
وہاں پہ پھٹکار ہو، غضب ہو
کوئی وہاں سے کبھی نہ گزرے
کسی کو جنت کی نہ طلب ہو
اے میرے منصف
میں مشتعل ہوں، میں مضطرب ہوں
ترے اصولوں سے منحرف ہوں
ہیں پاؤں مشتاق بیڑیوں کے
جنوں کی زد میں ہوں، مختلف ہوں
میں ظلم و دہشت کی اس فضا میں
تیری عداوت کا معترف ہوں
مجھے قسم ہے!
میں اپنے خوں سے نگار ہستی سنوار دونگا
میں مٹ بھی جاؤں تو زندگی کو نکھار دونگا
مگر اے منصف
تیرے لیے پھر اماں نہ ہوگا
کہیں بھی تیرا مکاں نہ ہوگا
نہ کوئی منصب، نہ کوئی درجہ
کوئی بھی تیرا درباں نہ ہوگا
تجھے یہ برھان مار دیں گے
کہیں بھی کوئی نشاں نہ ہوگا
تیری ہر ایک سانس حبس ہوگی
کہیں کوئی سائباں نہ ہوگا
مجھے آزادی ملے گی لیکن
تیراپھر ختم زنداں نہ ہوگا
اے میرے منصف یہ جان لو کہ
تیرا پھر ختم زنداں نہ ہوگا