داستاں سن کر میری جب وہ پریشاں ہو گئے
بار گاہِ عشق میں ہم خود پشیماں ہو گئے
ضبطِ غم نا ہو سکا فریاد شکوہ بن گئی
یاد اُن کی جب بھی آئی ہم غزل خواں ہو گئے
اب کہاں وہ حوصلے کہ آزمائیں پھر اُنہیں
بے بسی سے آج اپنی ہم نمایاں ہو گئے
درمیاں کیا کیا دلوں کے حادثے ہوتے رہے
خونِ دل کرتے رہے جو وہ دل و جاں ہو گئے
یاد وہ آتے رہے عہدِ محبت کی طرح
شمع دل جب بھی بجھا لمحے فروزاں ہو گئے