اندیشہ ہے وہ آکے نہ بھنبھوڑ دے مجھے
اس بے حسی سے کوئی تو جھنجھوڑ دے مجھے
جڑ جانا اُس سے ، ہی تو ہے بربادی کی وجہ
کوئی تو ہو سبب، جو اُس سے توڑ دے مجھے
جنس ہے ہر ایک اب غیروں کی منڈی میں
ضمیر میرا لے لے، چند کروڑ دے مجھے
فریب میں آکر کیا بےتیغ جو خود کو
ڈرتا ہوں کہ گردن سے نہ مروڑ دے مجھے
جس کے لئے اپنے کئے تھے جانبِ مقتل
خطرہ ہے اُسی راہ پہ، نہ موڑ دے مجھے
جانتا ہے قتل تھا تیرے لئے کیا
پھر میرا قصور کیا تو چھوڑ دے مجھے
پیاس جو بجھتی نہیں ، ہے اُس کا ارادہ
رگوں میں جو بچا نہیں، نچوڑ دے مجھے
بلبلہ ہوں میں ہوا میں تیرتا ریاض
خوف ہے ہر دم کوئی نہ پھوڑ دے مجھے