تشنہ لب دے گئے ہیں قربانی
دین کو جبر سے نجات ملی
کہہ گئے کلمہ حق زیر تیغ مردان حق پرست کربلا میں
اپنے جگر گوشوں کے خون سے
شجر اسلام کی آبیاری کر کے
سرخرو ہو گئے اپنے خالق کے حضور نواسہء رسول کے سب جانثار
درس یہ کربلا سے ملتا ہے
راہ حق مین جو جان دیتے ہیں
نوع انساں کی نجات کے ضامن بن جاتے ہیں
اس کا صلہ خدا سے ملتا ہے
امام حسین کی قربانی
دس محرم اکسٹھ ہجری عصر کے وقت
استبدادی قوت کے سارے رعونت کے دعوے
پل بھر میں پامال ہوئے
شیر خدا کے بیٹے نے جبر کا ہر انداز ٹھکرا کر
ظالم و سفاک استحصالی عناصر کے سب کس بل نکال دیئے
ظلم و جور کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا
عزم صمیم کر کے ابن حیدر نے
صحرا میں وہ پھول اگائے جو ابد تک
ذہنوں کو کو معطر کرتے رہیں گے
خون جگر سے پھر ان کو سیراب کیا
دل کے ٹکڑئے دے کر ان کو تابانی دی
ازلی اورابدی صداقتوں کے امیں تھے سب جانثار
جبر کے ایوانوں کو سب نے مل کر یوں مسمار کیا
ان ایوانوں میں ظلم و ستم کرنے والے
تاریک کے طوماروں میں دب گئے
حشر تک اس دنیا مین ان کا نام لیوا کوئی نہ ہو گا