تم لاکھ چاہے میری آفت میں جان رکھنا
Poet: کمار وشواس By: Ghani, Hyderabad
تم لاکھ چاہے میری آفت میں جان رکھنا
پر اپنے واسطے بھی کچھ امتحان رکھنا
وہ شخص کام کا ہے دو عیب بھی ہیں اس میں
اک سر اٹھانا دوجا منہ میں زبان رکھنا
پگلی سی ایک لڑکی سے شہر یہ خفا ہے
وہ چاہتی ہے پلکوں پہ آسمان رکھنا
کیول فقیروں کو ہے یہ کامیابی حاصل
مستی سے جینا اور خوش سارا جہان رکھنا
More Kumar Vishwas Poetry
کوئی دیوانہ کہتا ہے کوئی پاگل سمجھتا ہے کوئی دیوانہ کہتا ہے کوئی پاگل سمجھتا ہے
مگر دھرتی کی بے چینی کو بس بادل سمجھتا ہے
میں تجھ سےدور کیسا ہوں تو مجھ سےدور کیسی ہے
یہ میرا دل سمجھتا ہے یا تیرا دل سمجھتا ہے
محبت ایک احساسوں کی پاون سی کہانی ہے
کبھی کبیرا دیوانہ تھا کبھی میرا دیوانی ہے
یہاں سب لوگ کہتے ہیں میرے آنکھوں میں پانی ہے
جو تو سمجھے تو موتی ہے جو نہ سمجھے تو پانی ہے
بھنور کوئی کُمُدنی پر مچھل جائے تو ہنگامہ
ہمارے دل میں کوئی خواب پل جائے تو ہنگامہ
ابھی تک ڈوب کر سنتے تھے سب قصہ محبت کا
میں قصے کو حقیقت میں بدل بیٹھا تو ہنگامہ
مگر دھرتی کی بے چینی کو بس بادل سمجھتا ہے
میں تجھ سےدور کیسا ہوں تو مجھ سےدور کیسی ہے
یہ میرا دل سمجھتا ہے یا تیرا دل سمجھتا ہے
محبت ایک احساسوں کی پاون سی کہانی ہے
کبھی کبیرا دیوانہ تھا کبھی میرا دیوانی ہے
یہاں سب لوگ کہتے ہیں میرے آنکھوں میں پانی ہے
جو تو سمجھے تو موتی ہے جو نہ سمجھے تو پانی ہے
بھنور کوئی کُمُدنی پر مچھل جائے تو ہنگامہ
ہمارے دل میں کوئی خواب پل جائے تو ہنگامہ
ابھی تک ڈوب کر سنتے تھے سب قصہ محبت کا
میں قصے کو حقیقت میں بدل بیٹھا تو ہنگامہ
Hassan
اسی کی طرح مجھے سارا زمانا چاہے اسی کی طرح مجھے سارا زمانا چاہے
وہ مرا ہونے سے زیادہ مجھے پانا چاہے
میری پلکوں سے پھسل جاتا ہے چہرہ تیرا
یہ مسافر تو کوئی اور ٹھکانا چاہے
ایک بن پھول تھا اس شہر میں وہ بھی نہ رہا
کوئی اب کس کے لیے لوٹ کے آنا چاہے
زندگی حسرتوں کے ساز پہ سہما سہما
وہ ترانہ ہے جسے دل نہیں گانا چاہے
وہ مرا ہونے سے زیادہ مجھے پانا چاہے
میری پلکوں سے پھسل جاتا ہے چہرہ تیرا
یہ مسافر تو کوئی اور ٹھکانا چاہے
ایک بن پھول تھا اس شہر میں وہ بھی نہ رہا
کوئی اب کس کے لیے لوٹ کے آنا چاہے
زندگی حسرتوں کے ساز پہ سہما سہما
وہ ترانہ ہے جسے دل نہیں گانا چاہے
Sajid
تمہیں جینے میں آسانی بہت ہے تمہیں جینے میں آسانی بہت ہے
تمہارے خون میں پانی بہت ہے
کبوتر عشق کا اترے تو کیسے
تمہاری چھت پہ نگرانی بہت ہے
ارادہ کر لیا گر خودکشی کا
تو خود کی آنکھ کا پانی بہت ہے
زہر سولی نے گالی گولیوں نے
ہماری ذات پہچانی بہت ہے
تمہارے دل کی من مانی مری جاں
ہمارے دل نے بھی مانی بہت ہے
تمہارے خون میں پانی بہت ہے
کبوتر عشق کا اترے تو کیسے
تمہاری چھت پہ نگرانی بہت ہے
ارادہ کر لیا گر خودکشی کا
تو خود کی آنکھ کا پانی بہت ہے
زہر سولی نے گالی گولیوں نے
ہماری ذات پہچانی بہت ہے
تمہارے دل کی من مانی مری جاں
ہمارے دل نے بھی مانی بہت ہے
Umair Khan
آبشاروں کی یاد آتی ہے آبشاروں کی یاد آتی ہے
پھر کناروں کی یاد آتی ہے
جو نہیں ہیں مگر انہیں سے ہوں
ان نظاروں کی یاد آتی ہے
زخم پہلے ابھر کے آتے ہیں
پھر ہزاروں کی یاد آتی ہے
آئنے میں نہار کر خود کو
کچھ اشاروں کی یاد آتی ہے
اور تو مجھ کو یاد کیا آتا
ان پکاروں کی یاد آتی ہے
آسماں کی سیاہ راتوں کو
اب ستاروں کی یاد آتی ہے
پھر کناروں کی یاد آتی ہے
جو نہیں ہیں مگر انہیں سے ہوں
ان نظاروں کی یاد آتی ہے
زخم پہلے ابھر کے آتے ہیں
پھر ہزاروں کی یاد آتی ہے
آئنے میں نہار کر خود کو
کچھ اشاروں کی یاد آتی ہے
اور تو مجھ کو یاد کیا آتا
ان پکاروں کی یاد آتی ہے
آسماں کی سیاہ راتوں کو
اب ستاروں کی یاد آتی ہے
Qaiser
پھر مری یاد آ رہی ہوگی پھر مری یاد آ رہی ہوگی
پھر وہ دیپک بجھا رہی ہوگی
پھر مرے فیس بک پے آ کر وہ
خود کو بینر بنا رہی ہوگی
اپنے بیٹے کا چوم کر ماتھا
مجھ کو ٹیکہ لگا رہی ہوگی
پھر اسی نے اسے چھوا ہوگا
پھر اسی سے نبھا رہی ہوگی
جسم چادر سا بچھ گیا ہوگا
روح سلوٹ ہٹا رہی ہوگی
پھر سے اک رات کٹ گئی ہوگی
پھر سے اک رات آ رہی ہوگی
پھر وہ دیپک بجھا رہی ہوگی
پھر مرے فیس بک پے آ کر وہ
خود کو بینر بنا رہی ہوگی
اپنے بیٹے کا چوم کر ماتھا
مجھ کو ٹیکہ لگا رہی ہوگی
پھر اسی نے اسے چھوا ہوگا
پھر اسی سے نبھا رہی ہوگی
جسم چادر سا بچھ گیا ہوگا
روح سلوٹ ہٹا رہی ہوگی
پھر سے اک رات کٹ گئی ہوگی
پھر سے اک رات آ رہی ہوگی
waseem






