تمہاری یاد کے آنسو بن بن آس آتے ہیں
سرابِ زندگی میں لبِ جان بن پیاس آتے ہیں
خیالِ بزم میں میری مہماں بن آتے ہیں
قلبِ تازیانے پہ اپنے گمراہِ احساس آتے ہیں
میرا اپنا ہی کیا ، کیا بتاؤں تمہیں
خوشی خوشی رخت سفر پلٹ کر اداس آتے ہیں
اُڑا کر میرا رنگ ہوا میں بہلاتے ہیں
آج نہ سمجھے عمر بھر بن قیاس آتے ہیں
میں تو بیج پھل ہوں گہرائی میں اُتر آتا ہوں
گر رہتا ساحل پہ لہر میں خناس آتے ہیں
رحمتِ ساون میں وفائیں بن گھٹا آتی ہیں
تنہا بھی ہو پڑھتے فلق و الناس آتے ہیں
قیامِ جہان میں مجھے مقامِ امتحاں آتے ہیں
عارضِ انساں تجھے محمود بن افلاس آتے ہیں