آنکھ تھکن، دل تھکن، روح تھکن،
چل رہا ھوں مگر جیسے مجسم تھکن
کر رہا ھوں سوئے منزل کو سفر
مگر ایسے نہ ھو جیسے کوئی لگن
مہرباں چہروں کی دیکھ کر نامہربانیاں
خاموش پھررہا ھوں لیئے دل میں دکھن
اسکی آنکھیں، اسکا چہرہ، اسکی باتیں، اسکا لہجہ
کر جا تے ہیں میرے دل میں اکثر چبھن
دیکھ لیں اسقدر دنیا کی بیگانہ روی
رہتا ھوں بس اب تو خود میں مگن
ہاتھوں میں نہیں کوئی چاند، سورج یا ستارہ
کردے راھوں کو روشن شاید میرے سینے کے اگن
زخم دل کی نمائش سے ملیگا بھی کیا امین
نہ آئے شاید کسی چہرے پر کوئی بھی شکن