تیرے میرے درمیاں کچھ سلسلہ باقی نہیں
سچ کو سچ کہنے کا لیکن حوصلہ باقی نہیں
کر لیا جب تم نے طے کہ اب کبھی ملنا نہیں
اور اب ہونے کو کویٔ فیصلہ باقی نہیں
تیرے میرے درمیاں اب دوریاں ہیں اسقدر
ایک ہو جانے کا کویٔ راستہ باقی نہیں
کون کہتا ہے کہ اِک عرصہ گذر جانے کے بعد
تلخ لہجوں کا ابھی بھی ذایقہ باقی نہیں
کون جانے کیا دکھاۓ وقت اگلے موڑ پر
ہاں بظاہر تو کویٔ بھی حادثہ باقی نہیں
مدتوں پہلے جلا ڈالے تھے اُس کے سب خطو ط
اُس سے میرا اب کویٔ بھی رابطہ باقی نہیں
ڈھوُنڈنے ہیں خود ہی عذراؔ تجھ کو منزل کے نشاں
لے چلے جو ساتھ ایسا قافلہ باقی نہیں