دریا دریا گھوم رہی تھی
لہر کی مانند جھوم رہی تھی
جذبہ اُلفت قائم و دائم
تتلی پھول کو چوم رہی تھی
پہن کہ چوغہ عشق کا تنہا
اذل سے جو مغموم رہی تھی
دشت میں جینا سیکھ چکی ہے
پل پل جو معصوم رہی تھی
قطرہ قطرہ پی رہی تھی
زندگی جیسے جی رہی تھی