اب یہاں ظلم کے قصوں کو رقم کرنا ہے
اب یہ راتوں کا سیاہ پن بھی ختم کرنا ہے
بیگناہوں کا لہو جس نے بہایا ہے یہاں
اس ہی جلاد کے سر کو بھی قلم کرنا ہے
حق کی پاداش میں کٹ کر جو زمیں تک پہنچے
ان ہی ہاتھوں کو فتح یاب علم کرنا ہے
اب یہ نفرت زدہ تحریر مٹانی ہوگی
پیار کے گیت کو اب عام فہم کرنا ہے
اب یہ دہشت زدہ دستور بدلنا ہوگا
اب تشدد کے فسانے کو بھسم کرنا ہے
بند ذہنوں کے قفل کھول دو اب تو لوگوں
اب یہ سوچوں کی زمیں کو بھی نرم کرنا ہے
دکھ مٹا کر یہاں خوشیوں کو بسانا ہوگا
اب یہاں ختم ہمیں رنج و الم کرنا ہے
سحر لانی ہے اندھیروں کو مٹا کر اشہر
اب یہاں نور کے جلوؤں کو بہم کرنا ہے