جناب شیخ کی ہرزہ سرائی جاری ہے
ادھر سے ظلم ادھر سے دہائی جاری ہے
بچھڑ گیا ہوں مگر یاد کرتا رہتا ہوں
کتاب چھوڑ چکا ہوں پڑھائی جاری ہے
ترے علاوہ کہیں اور بھی ملوث ہوں
تری وفا سے مری بے وفائی جاری ہے
وہ کیوں کہیں گے کہ دونوں میں امن ہو جائے
ہماری جنگ سے جن کی کمائی جاری ہے
عجیب خبط مسیحائی ہے کہ حیرت ہے
مریض مر بھی چکا ہے دوائی جاری ہے