جو کرنا ہے وہ کر لو زندگی کی شام سے پہلے
ذرا انجام کا بھی سوچ لو انجام سے پہلے
بڑا شاطر ہے ہر پہلوُ پہ رہتی ہے نظر اس کی
صفایٔ پیش کر دیتا ہے وہ اِلزام سے پہلے
نہ ہو حاصل تمہارا پیار لیکن یہ بھی کیا کم ہے
ہمارا نام آ تا ہے تمہارے نام سے پہلے
بھروسہ نامہ بر کا کیا نجانے کب وہاں پہنچے
چلے آۓ بذاتِ خود ہی ہم پیغام سے پہلے
نجانے کِس نے اِنسانوں کو اِن درجوں میں بانٹا ہے؟
ہے انساں ایک انساں بھی تو خاص و عام سے پہلے
وہ کیسا شخص تھا تحفے میں جِس نے موت بانٹی ہے
ابھی خوشیوں کا عالم تھا یہاں کہرام سے پہلے