جو عقدۂ مشکل ہے وہ آسان سا کیوں ہے
پھر بھی مرا اتنا پریشان سا کیوں ہے
گلیوں کا یہ انبوہ ، یہ بازار کی رونق
یہ شہر مگر پھر بھی بیابان سا کیوں ہے
کیوں بدلا ہوا طرز_تکلم ہے کسی کا
دیرینہ رفاقت پہ بھی انجان سا کیوں ہے
ہر چیز بظاہر بہت ٹھیک ، بہت خوب
کیا جانے پھر ذہن میں خلجان سا کیوں ہے
طفلان_سررہ کا سا انداز ہے اس کا
وہ عقل میں پختہ ہے نادان سا کیوں
دنیا سے بھی ہیں اس کے مراسم بہت اچھے
اس نے مرا رہنا ہے ، مجھے مان سا کیوں ہے
دکھ درد کے اشعار سے لبریز ہے گویا
ہر شخص یہاں صاحب_دیوان سا کیوں ہے