جو چاند تاروں کو روشنی دے ، وہی خدا ہے، وہی سدا ہے
میں کیسے کہہ دوں کہ آندھیوں میں چراغ کوئی نہیں جلا ہے
وہ کون ہیں جو یہ جن کو ملتی ہیں آرزوئیں بہار بن کر
مجھے تو اپنا یہ سارا گلشن لہو میں ڈوبا ہوا ملا ہے
نئی سحر کے حسین سورج ترا غموں سے ہے واسطہ کیا
تو اپنی دنیا پہ راج کر لے کہ میرا جگنو ہی بجھ گیا ہے
یہ سب کے آنگن میں نفرتیں ہیں یہ بد دلی ہے ،عداوتیں ہیں
جدا ہے چہرہ ، بدن جدا ہے، کوئی بھی اک سا نہیں رہا ہے
تمہارے روشن خیال و خد نے نہ جانے کیساہے کھیل کھیلا
نہیں ہے رخ پر حجاب باقی نہ آنکھ میں اب کوئی حیا ہے
بنے گی دلہن ، رچے گی مہندی نہ جانے کب اس کو کیا پتہ ہے
سسک رہی ہے غریب بیٹی ضعیف والد بھی رو رہا ہے
کہیں بھی ہو حادثہ وطن میں ہمیں ہیں ملزم ہمیں ہیں مجرم
ہے کون ملزم ہے کون مجرم کسی سے اب کچھ نہیں چھپا ہے
یہ اپنی آنکھوں کا نور دے کر یہ اپنے ہونٹوں کا رزق کھو کر
اداس چہرے سوال آنکھیں یہ مجھ کو شہرِ وفا ملا ہے
وہ تیر و تلوار اور خنجر چھپا کے پھرتے ہیں آستیں میں
چھپا کے رکھتے ہیں زخم وشمہ کہ ہم کو ان سے یہی ملا ہے