جو ہوتی دیس میں عزت ہنر کی
نہ کھاتے ٹھوکریں ہم در بدر کی
کہا مرتے ہوئے بیکس نے مجھ سے
سخاوت دیکھ لی تیرے نگر کی
جو حج میں ایک اُمت لگ رہی ہے
سنو اِس کی کہانی سال بھر کی
انا نے لُوٹ لی اِس کی خلافت
شکایت کی فرشتوں نے بشر کی
تمھارے شہر میں سب بے وفا ہیں
خطا اِس میں نہ تھی کچھ نامہ بر کی
جو سوئیں اب قیامت کو اُٹھیں گے
تھکن اترے یونہی شاید سفر کی
کسی طوفان کی آمد ہے شاید
خموشی دیدنی ہے رہگزر کی
ہمارے درمیاں سے ہی اُٹھا ہے
شکایت کیا کریں ہم راہبر کی
مِلا دیتی ہے بندے کو خدا سے
پہنچ افلاک تک آہِ سَحَر کی