جِس طرح تیر کمانوں سے نکل جاتے ہیں
اِس طرح لفظ زبانوں سے نکل جاتے ہیں
جب بھی پڑتی ہے سہارے کی ضرورت مجھ کو
میرے بازو مرے شانوں سے نکل جاتے ہیں
ان میں کر لیتے ہیں پھر آکے بسیرا آسیب
جب مکیں اپنے مکانوں سے نکل جاتے ہیں
آپ کے ہاتھوں میں ہم دیکھ چکے ہیں پتھر
لیجیۓ آینۂ خانوں سے نکل جاتے ہیں
جِن کے ہونے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا
ایسے کِردار فسانوں سے نکل جاتے ہیں
نام تک یاد نہیں رہتا کِسی کو اُن کا
جو کہ لمحوں کی اذانوں سے نکل جاتے ہیں
اُن کو ہوتی نہیں کچھ اپنے پراۓ کی تمیز
تیز خنجر جو میانوں سے نکل جاتے ہیں