حادثے کے کچھ نشاں ہم کو بھی ساحل پر ملے
Poet: Azra Naz By: Azra Naz, UKحادثے کے کچھ نشاں ہم کو بھی ساحل پر ملے
نم ہوا کی سسکیاں ، روتے ہوۓ پتھر ملے
ہم نے چٹانوں کو بھی دیکھا ہے اکثر ٹوٹتے
خشک آنکھوں میں چھپے اکثر کییٔ ساگر ملے
قدر کی ان کی کسی نایاب ہیرے کی طرح
ان کے رستے میں پڑے جتنے ہمیں پتھر ملے
مختلف تھے ہم زمانے بھر سے شایٔد اِس لیۓ
ہم کو جو بھی غم ملے معمول سے ہٹ کر ملے
پانیوں میں بہہ گیںٔ خوابوں کی ساری بستیاں
باشوں کے زور سے ٹوٹے ہوۓ جب گھر ملے
شک نہیں اس کی کڑی محنت میں رتی بھر مگر
کیا کرے ایسا کِساں جس کو ز میں بنجر ملے
زندگی میں اور آگے بڑھ تو سکتی ہیں مگر
کیا کریں وہ لڑکیاں ورثے میں جِن کو ڈر ملے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







