جس وقت ہم نے گلیوں سے لاشے اٹھائے ہیں
اُس وقت کتنے خون کے آنسو بہائے ہیں
منصف سزا کہاں کوئی اس کو سنائے گا
جس نے غریبِ شہر کے سپنے چرائے ہیں
دیکھا عجیب شہر کے حاکم کا مشغلہ
انسان قتل کر کے کبوتر اڑائے ہیں
ظالم ہوا سے اب یہ ضروری ہے پوچھنا
کیوں راہ کے دیئے سبھی اُس نے بجھائے ہیں
لگنی ہے ایک دن تجھے اس ماں کی بد دعا
بھوکی رہی جو بچے بھی بھوکے سلائے ہیں
دیتے رہے جو تم ہمیں پل پل اذیتیں
کتنی ہی مشکلوں سے وہ لمحے بھلائے ہیں
بچے یہ قرض لوگو اتاریں کے کس طرح
اولاد کے جو ماؤں نے نخرے اٹھائے ہیں
عابد کہو انہیں کبھی دیکھیں اتار کر
آنکھوں پہ جو اناؤں کے چشمے لگائے ہیں