لوگ بھی موسموں کی طرح بدلتے ہیں
خزآں آتی ہے تو موسم سرد ہو ہی جاتا ہے
ضروری تو نہیں لبوں سے بد دعا نکلے
دل ٹوٹتا ہے تو آشک نکل ہی جاتا ہے
صحیح غلط کا علم صرف کاتب تقدیر کو ہے
وقت گزرتا ہے تو دوسرا رخ نظر آہی جاتا ہے
اپنی ضرورتوں کا غلام کون نہیں ہے یہاں
نقاب ہٹتا ہے تو اصل چہرا نظر آہی جاتا ہے
نفرت ہو یا محبت ہو مستقل مزاجی ضروری ہے
قظرہ قطرہ گرتا ہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو ہی جاتا ہے
مثالیں دیتی ہے دنیا چیونٹی کے اتحاد کی مگر
ٹکڑوں میں بٹ کر تو سمندر بھی خشک ہو ہی جا تا ہے