ضمیرِ آدمیت کیا لہو کے دھار بکتے ہیں
فروغِ جسم نمائش میں کئی کردار بکتے ہیں
عقیدے ڈگمگاتے ہیں پلائے حسن کا ثاقی
گلاس جام بھرتے ہی کئی دلدار بکتے ہیں
کدھر جاؤ گے بچ کر کے زمانہ مار ڈالے گا
یہاں پر ہر گلی میں ظلم کے ہتھیار بکتے ہیں
دریدہ جسم پر کپڑے وہاں کیونکر عطا ہوتا
جہاں دولت کی خوشبو ہو وہیں دستار بکتے ہیں
ہماری قوم و ملت پر جہالت ایسی چھائی ہے
اسی بنیاد پر لوگوں کے اب گھر بار بکتے ہیں
تقدس پرداداری کا زمانے نے عجب لوٹا
حیا کے آئینے بھی اب سر بازار بکتے ہیں
اَدبِیّت فکر کی ہرگز تجارت میں نہیں کرتا
یہ کس نے کہہ دیا تمکو میرے اشعار بکتے ہیں
تحفظ اپنے ایماں کی رضا یہ سوچ کر کرنا
کہ اس دورِ حوادث میں بہت فنکار بکتے ہیں