کیا یاد تجھے بھی آتے ہیں
اک لڑکی تھی اک لڑکا تھا
لڑکا جب تعلیم کا اپنی سال مکمل کرتا تھا
اور ترقی کر کے وُہ تعلیم کا زینہ چڑھتا تھا
خوش خبری وُہ سب سے پہلے لڑکی کو ہی سُناتا تھا
اس کے لئے وُہ شہر سے تازہ پھول اور لڑی لاتا تھا
وُہ لڑکی جن کی رسیا تھی
بیٹھ کے پاس وُہ لڑکی کے
اُس کی آنکھیں بند کر دیتا تھا
منہ اُسکا کُھلواتا تھا
اور میٹھے سے بھر دیتا تھا
اپنے ہاتھوں اُسے کھلاتا تھا
لڑکی بھی لڑکے پہ بہت سے پھول نچھاور کرتی تھی
اور مُبارک دیتی تھی
دن اُن کے لبریزَ محبت راتوں کے خواب بھی اپنے تھے
پت جھڑ کا کوئی نام نہ تھا اور سارے رنگ بہار کے تھے
خوشیوں کے گہوارے میں ہر دم ہلکورے لیتے تھے
گلہائے مسرت لے کے بہاریں چاروں جانب رقصاں تھیں
کیا یاد تجھے بھی آتے ہیں
اک لڑکی لمبی چٹی سی اک لڑکا سانولا سانولا سا
(جا ری)