اف یہ بے درد سیاہی ، یہ شب رنج و فغاں
یہ سسکتے ہوئے لمحات، یہ آہوں کا سماں
ہر طرف موت کے سائے ہیں ، ہر اک سمت دھواں
خاک پر اب بھی لہو بہتا ہے انسانوں کا
کوئی حد ہو تو سہیں ظلم کو سہنے والے
حد سے بڑھ جائے تو جیتے نہیں جینے والے
سولی چڑھ جاتے ہیں سچ بات کو کہنے والے
خاک پر اب بھی لہو بہتا ہے انسانوں کا
اس کی تقدیر کہ زندہ ہے حوادث کے لیے
زندگی مرگ ہے ، اک سوگ ہے مفلس کے لیے
بات ہوتی ہے نئے دور کی پر کس کے لیے
خاک پر اب بھی لہو بہتا ہے انسانوں کا
اب نہ الفت بھرے نغمات سنائے گا کوئی
ان اندھیروں میں نہ اب دیپ جلائے گا کوئی
کون جانے کہ سحر دیکھ بھی پائے گا کوئی
خاک پر اب بھی لہو بہتا ہے انسانوں کا
ساری دنیا میں امن کے ہیں ادارے کتنے
تیرہ شب میں ہیں یہ بے نور ستارے کتنے
ان کے ہوتے ہوئے انساں گئے مارے کتنے
خاک پر اب بھی لہو بہتا ہے انسانوں کا