یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار
یہ تیرے لب یہ دیار یمن کے سرخ عقیق
یہ آئنے سی جبیں سجدہ گاہ لیل و نہار
یہ بے نیاز گھنے جنگلوں سے بال ترے
یہ پھولتی ہوئی سرسوں کا عکس گالوں پر
یہ دھڑکنوں کی زباں بولتے ہوئے آبرو
کمند ڈال رہے ہیں مرے خیالوں پر
تری جبیں پہ اگر حادثوں کے نقش ابھریں
مزاج گردش دوراں بھی لڑکھڑا جائے
تو مسکرائے تو صبحیں تجھے سلام کریں
تو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آئے
مگر میں شہر حوادث کے سنگ زادوں سے
یہ آئنے سا بدن کس طرح بچاؤں گا
مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے قرب سمیت
میں خود بھی دکھ کے سمندر میں ڈوب جاؤں گا