گردوں کی گردشوں میں کہیں کھو گیا ہوں میں
دھرتی کی خاک میں کہیں گم ہو گیا ہوں میں
لب ساحل کھڑا ہوں لیکن منزل ملے نہ مجھ کو
دلدل میں دھنس رہا ہوں کہ قاتل ملے نہ مجھ کو
شب غم نے آن گھیرا تلاش وصال میں
جانے کتنی صدیاں بیتیں ان ماہ و سال میں
خوابوں کو کھوجتا ہوں کہ ہوں دور منزلوں سے
منزل میری ہے لیکن کہیں دور ساحلوں سے
اک حاصل منزل چھوڑ آیا سپنوں کی تلاش میں
اپنی منزل کو بھول گیا اس سلسلہ معاش میں
بہت پیچ دار معاملہ ہے روزگار کا
نازک بہت ہے قیصر رشتہ اعتبار کا