خوشبؤوں کے سمندر اڑنے تو دو
پھولوں کو پہلے خوب مسلنے تو دو
جرم کیے بغیر ہی مجرم ٹہرا دیا
صاحب ذرا واردات کرنے تو دو
نا کھولونگا انکا راز محفل میں لیکن
چہرے پر ذرا ہوائیاں اڑنے تو دو
نینوں سے یہ در پے کیے جاتے ہو وار
اتنے ظالم تو نہ بنو سنبھلنے تو دو
تشدد ہلاکت کے پیمانے ختم ہو جائیں گے
ذرا امن کی ہوا چلنے تو دو
سارے دل درد پل میں دور ہو جائیں گے
انعام لاٹری کا کھلنے تو دو