خیر ہے خود کو مٹا دیتا ہوں پہلے اسے بھلا دیتا ہوں ڈھنگ تو زندگی کے ہیں ہزار میں ہی کیوں خود کو سزا دیتا ہوں موسموں کی طرح خود کو بدلتے ہیں لوگ اک میں ہی خود کو سمجھا لیتا ہوں سچ ہے ہار ہی گیا تھا میں امید صرف رب سے لگا لیتا ہوں