دشتِ جنوں کی خاک نہ چھانا کرے کوئی
اے کاش دِل کی بات نہ مانا کرے کوئی
باتوں سے ہی محل نہ بناۓ ہواؤں میں
کرکے دکھا بھی دے کہ جو ٹھانا کرے کوئی
چاہت بھری نگاہ سے بھاگیں کہاں تلک ؟
ہم کیا کریں جو دِل میں ٹھکانہ کرے کوئی
لوٹ آئیں کاش پھر سے پرانے وہ رات دِن
ملنے کا مجھ سے روز بہانہ کرے کوئی
جاگی ہے دِل میں آج یہ خواہش عجیب سی
موسم ہمارے دِل کا سہانا کرے کوئی
دل چاہتا ہے سنتے چلے جائیں عمر بھر
گر پھر شروع وفا کا فسانہ کرے کوئی
آنکھوں کو موندتے ہی افق پار سے کہیں
خوابوں کے قافلوں کو روانہ کرے کوئی
عذراؔ ہر ایک فیصلہ کرنے سے پیشتر
مرضی ہمارے دِل کی بھی جانا کرے کوئی