دم دار ستارے پے تصور کی مہر ہے
یقیں آنکھ س اوجھل اور دلوں پے مہر ہے
اب کیسے چھپائیں اس ناداں کے ہنر
ہر زخم پریشاں اور لبوں پے مہر ہے
تاریکی کے رشتوں میں ہے وحشت کی آمیزش
ہے رات کی سیاہی اور ستاروں پے مہر ہے
جب موج تھی دریا میں تو تھی آس بھی باقی
اب پانی کی روانی میں طوفانوں کی مہر ہے
وہ اک آگ تھی روشن جو جلاتی تھی سحر کو
اب سورج ہوا پابند اجالے پے مہر ہے
ہے وقت نزع اس نے کیا اعتراف گناہ کا
اب توبہ نہں باقی دروازے پے مہر ہے
وہ جو اک شعر میسر تھا ہوا تحلیل ہوا میں
سب غزلوں پے ہے پہرا الفاظوں پے مہر ہے
اب خوف کی فضا میں تراشے ہوئے بت ہیں
ہے زباں بھی کٹی ہوئی اور ہاتھوں پے مہر ہے