دن گنے جا چکے ہیں لگتا ھے تیری تقدیر کے
کوئی خواب ادھورا رھہ گیا یعنی تیرے تعبیر کے
ایک جانب تو ھے تنہا اکیلا کھڑا کسی کوہ کیطرح۔
اور مقابل کھڑے ہیں تیرے پتلے ظلم کی تصویر کے۔
جسکی لاٹھی اس کی بھینس کہاوت تو سنی ہو گی؟
تیرے ساتھ بھی یہی ہو رہا ھے اے پیکر ناگیر کے۔۔
کس کو آن پڑی قومیت کی جو کہ تیرا ساتھ دے۔۔۔
آزادی کی اس جنگ میں بھینٹ چڑہائے جاگیر کے۔
یہ غلامی کی زنجیر مردہ ضمیرون کو قبول ھے۔
ہاں مگر قبول نہیں غلامی تیرے زیر شمشیر کے۔