دن ہیں پریشان اور رات ہیں سنسان بہت
حیران سے پھرتے ہیں یہاں انسان بہت
پہلے کوئی تہذیب تھی پیار کے دو بول پہ جھک جاتے تھے
اب تو بک جاتے ہیں انسان تہذیب ہے حیران بہت
پھرتے یہاں ہیں بدروح زندوں کا لبادہ لے کر
اب کے شہر ہے ویران آباد ہے قبرستان بہت
کبھی روٹی تھی میسر لوگ محنت پہ یقین رکھتے تھے
اب تو خاکستر ہیں خاک چھانتے ہوئے انسان بہت
اے خدا یہ کون سی قیامت یہاں ہوئی برپا ہے
فتوای منبر سے بہے جاتے ہیں خون مسلمان بہت
شائد ہم ہی نے روایات کا گلہ گھونٹا ہے
تہذیب غلط لی ہے بیچ کر ایمان بہت
روندے ہیں مراسم جو اخلاص پہ قائم تھے
بیچ کھائے ہیں سب نے ملک پاکستان بہت
بنیاد دین کو ہلائی ہیں مغرب کے تماشے دیکھ کر
پیسوں کے عوض بیچے ہیں آیات قرآن بہت
ووٹوں کے عوض ڈھونڈے نوٹوں کا نیا قانون
ضمیر کا سودا کر کے بدلے ہیں حکمران بہت
ڈھونڈے سے نہیں ملتے قدروں کا خیال کرنا
کیوں دستور جہاں مجھ کو کرتا ہے پریشان بہت