ہر شئے میں ہے تغیّر، اور بے ثبات دنیا
مکڑی کا ہے یہ جالا، دلدل صفات دنیا
نظروں کا ہے یہ دھوکا مثلِ سراب ہے یہ
فانی وجود اسکا، چند ساعتوں کی دنیا
پانی کا بلبلہ ہے کم تر و کم اثر ہے
اس سے نہ دل لگانا یہ عارضی ہے دنیا
ہر سُو لگائے اس نے مُکر و ریا کے پھندے
ناز و ادا سے اپنی بہکا رہی ہے دنیا
لیلٰی نہیں یہ ہرگز بوڑھی و بد شکل ہے
دھوکہ نہ اس سے کھانا یہ سازشی ہے دنیا
خونی ہے مثلِ سپرک یہ چوستی لہو ہے
نرغے میں اپنے لیکر پھر مارتی ہے دنیا
ظلم و ستم کے مہلک ہتھیاروں کی بدولت
کرنا یہ چاہتی ہے، حق کو شکار دنیا
حق کی شمع روشن جب بھی ہوئی کہیں پر
ظلمت کے گیسئوں کو پھیلا رہی ہے دنیا
سلجھے ہوئے جب اسکے چکر میں پھنس سکے نہ
الجھوں کو اپنے جال میں الجھا رہی ہے دنیا
ٹھوکر میں جس نے رکھا اسکی لگاوٹوں کو
اسکے مقابلے سے کترا رہی ہے دنیا
ہر گز نہیں یہ اشہر دل کی لگی کی خاطر
ایسا نہ ہو کہ تو بھی کہلائے یار دنیا