زیست کی ناپائیداریوں کو دیکھا
لوگوں کی نااعتباریوں کو دیکھا
اہل ہوس کی کامرانیوں کو دیکھا
اہل ہنر کی بے سروسامانیوں کو دیکھا
بےکس پر ٹوٹتے ستم کو دیکھ کر
اہل زباں کی بے زبانیوں کو دیکھا
ان دیدہ ور و دانا لوگوں کے مقابل
ہم نے تو بس اپنی نادانیوں کو دیکھا
ہم تو کب کے سی چکے اپنے لبوں کو
پھر بھی ان کی زہرفشانیوں کو دیکھا
وہ جو دم بھرتے تھے اپنی ہمدمی کا
بڑی جلد ہی انکی بےگانگیوں کو دیکھا
سنا تھا زندگی سیج نہیں پھولوں کی
آغاز سفر میں ہی آبلہ پائیوں کو دیکھا
گردش ایام بے جب بھی کیا چلنا دو بھر امین
اپنے مولا مشکل کشا کی مہربانیوں کو دیکھا