ذرے جھڑ کر تیری پیزاروں کے
تاج سر بنتے ہیں سرداروں کے
ہم سے چوروں پہ جو کرم فرمائیں
خلعت زر بنیں پشتاروں کے
میرے آقا کا وہ در ہے جس پہ
ماتھے گھس جاتے ہیں سرداروں کے
میرے عیسیٰ تیرے صدقے جاؤں
طور بے طور ہیں بیماروں کے
مجرمو ! چشم تبسم رکھو
پھول بن جاتے ہیں انگاروں کے
جان و دل تیرے قدم پر وارے
کیا نصیبے ہیں تیرے یاروں کے
صدق و عدل کرم و ہمت میں
چار شہرے ہیں ان چاروں کے
بہر تسلیم علی میداں میں
سر جھکے رہتے ہیں تلواروں کے
کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضاؔ
بول بالے میری سرکاروں کے