رضواں تجھے جو ناز ہے جنت پہ اس قدر
کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے
پھیکا ہے نورِ خُر، رخِ انور کے سامنے
ہے ہیچ مشک زلفِ معطر کے سامنے
خجلت سے آب آب ہیں نسرین و یاسمین
کیا منہ دکھائیں جا کے گلِ تر کے سامنے
ہے زنگِ معصیت سے سیہ دل کا آئینہ
کیا اس کو لے کے جاؤں سکندر کے سامنے
قسمت کا لکّھا مٹ نہیں سکتا کسی طرح
تدبیر کیا کرے گی مقدر کے سامنے
نظرِ کرم ہو آنکھ میں آجائے روشنی
کہنا صبا یہ جا کے پیمبر کے سامنے
شیشہ نہ ہو نہ سنگ ہو، چشمہ ہو نور کا
اس کو لگا کے جاؤں میں سرور کے سامنے
جس در سے آج تک کوئی لوٹا نہ خالی ہاتھ
دستِ طلب دراز ہے اس در کے سامنے
رضواں تجھے جو ناز ہے جنت پہ اس قدر
کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے
سر پہ ہو ان کا دستِ شفاعت اثیمؔ کے
جس دم کھڑا ہو داورِ محشر کے سامنے