رنجشیں مِٹ بھی گیںٔ تو کچھ گلہ رہ جاۓ گا
میرے اُس کے درمیاں اِک فاصلہ رہ جاۓ گا
رفتہ رفتہ بھولُ جاؤں گی اُسے میں ایک دِن
یاد کا باقی مگر کچھ سلسلہ رہ جاۓ گا
یہ مسافر دو گھڑی بس سوُۓ منزل ہیں رواں
سب چلے جایںٔ گے خالی راستہ رہ جاۓ گا
یونہی گر اِک دوسرے سے پھر بچھڑ جایںٔ گے ہم
ہو کے پھر کویٔ نہ کویٔ حادثہ رہ جاۓ گا
برگ ہوجایںٔ گے اِک دِن شاخ سے اپنی جدُا
راہ میں بوڑھا شجر تنہا کھڑا رہ جاۓ گا
قربتیں آجایںٔ گی جب فاصلوں کی قید میں
عکس مِٹ جایںٔ گے لیکن آیٔنٔہ رہ جاۓ گا
ہر طرف جب آندھیاں محشر بپا کر جایںٔ گی
چار سوُ پھر وحشتوں کا دایرٔہ رہ جاۓ گا
اُن کے خط کا آسرا عذراؔ اگر جاتا رہا
پھر ہمارے درمیاں کیا رابطہ رہ جاۓ گا