رنگ دنیا نے دکھایا ہے نرالا دیکھوں
ہے اندھیرے میں اجالا تو اجالا دیکھوں
آئنہ رکھ دے مرے سامنے آخر میں بھی
کیسا لگتا ہے ترا چاہنے والا دیکھوں
کل تلک وہ جو مرے سر کی قسم کھاتا تھا
آج سر اس نے مرا کیسے اچھالا دیکھوں
مجھ سے ماضی مرا کل رات سمٹ کر بولا
کس طرح میں نے یہاں خود کو سنبھالا دیکھوں
جس کے آنگن سے کھلے تھے مرے سارے رستے
اس حویلی پہ بھلا کیسے میں تالا دیکھوں