عمر گزری اسی دشت میں سفر کرتے
کاش کے اپنے خوابوں کو بھی سحر کرتے
چند دن گردش ایام میں ٹھر کر
گزرے دنوں پر کیا فخر کرتے
مدت ہو چکی مٹی کو پوجتے میری
کیا بڑی بات تھی کہ خود کو امر کرتے
زہر ہی موت ہے تو زہر ہی شفاء
زندگی کے لیے آخر ہم کیا نہیں کرتے