کیسے کیا ہم نے نبھاہ اس زندگی کے ساتھ
کچھ تیرگی میں جی لیا ہے روشنی کے ساتھ
سب سازشیں ہیں یاد ہم کیسے بھلائیں گے
کیوں ہم رہے کھاتے فریب اس سادگی کے ساتھ
منزل رہی ہم سے جدا مجھے راستے بھی گم
گرمِ سفر پھر بھی رہے ہم تو خوشی کے ساتھ
جب عقل نے ہم کو سکھائے راز جینے کے
دامن نہ چھوڑا ہوش کا پھر بے خودی کے ساتھ
یہاں آرزو کی مشعلیں بجھتی رہیں تو کیا
کیوں شمع بجھتی جا رہی ہے بے دلی کے ساتھ