اپنے ما ضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناوں پہ شرمندہ ہوں میں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میرے ما ضی کواندھیرے میں دبا رہنے دو
میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
میری امیدوں کا حاصل میری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیت کےسوا کچھ بھی نہیں
کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر
کتنی بے ربط تمناؤں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر
مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی زندگی ناکام نہیں