زندگی ہم سے یوں اُلجھ جائے گی
سوچا تھا یہ ایسے ہی گزر پائے گی
من مان کر بھی میرا نہ ہوا
چھوڑ بیٹھا تھا کہ کیسے یاد بھلائے گی
چھوڑ اِس یار کو دے اُسے ہاتھ
یہ سمٹ کر خود بانہوں میں آئے گی
پہن کر دیکھو اُنکی ؑ پیراہن طریقت کو
وہ تم پر رنگ و نور برسائے گی
بزمِ عاشقاں میں جب ہو گی حاضری
شمع محفل بھی تم سے شرمائے گی