سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں
Poet: محسن نقوی By: farah, Abu dhabi
سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں
اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک میں
وصل کے شہر کی روشنی ایک تو
ہجر کے دشت میں کارواں ایک میں
بجلیوں سے بھری بارشیں زور پر
اپنی بستی میں کچا مکاں ایک میں
حسرتوں سے اٹے آسماں کے تلے
جلتی بجھتی ہوئی کہکشاں ایک میں
مجھ کو فارغ دنوں کی امانت سمجھ
بھولی بسری ہوئی داستاں ایک میں
رونقیں شور میلے جھمیلے ترے
اپنی تنہائی کا رازداں ایک میں
ایک میں اپنی ہی زندگی کا بھرم
اپنی ہی موت پر نوحہ خواں ایک میں
اس طرف سنگ باری ہر اک بام سے
اس طرف آئنوں کی دکاں ایک میں
وہ نہیں ہے تو محسنؔ یہ مت سوچنا
اب بھٹکتا پھروں گا کہاں ایک میں
More Mohsin Naqvi Poetry
جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا
مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا
برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی
اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا
ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں
تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا
بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں
کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا
بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا
مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا
کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی
کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا
مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا
برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی
اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا
ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں
تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا
بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں
کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا
بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا
مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا
کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی
کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا
فارس
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ
رزق ملبوس مکاں سانس مرض قرض دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسنؔ
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ
رزق ملبوس مکاں سانس مرض قرض دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسنؔ
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
مدثر
نہ سماعتوں میں تپش گھلے نہ نظر کو وقف عذاب کر نہ سماعتوں میں تپش گھلے نہ نظر کو وقف عذاب کر
جو سنائی دے اسے چپ سکھا جو دکھائی دے اسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی نہ وصال رت کے کرم جتا
جو تری تلاش میں گم ہوئے کبھی ان دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تھل کا مزاج دے کبھی چشم تر کو چناب کر
یہ ہجوم شہر ستمگراں نہ سنے گا تیری صدا کبھی
مری حسرتوں کو سخن سنا مری خواہشوں سے خطاب کر
جو سنائی دے اسے چپ سکھا جو دکھائی دے اسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی نہ وصال رت کے کرم جتا
جو تری تلاش میں گم ہوئے کبھی ان دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تھل کا مزاج دے کبھی چشم تر کو چناب کر
یہ ہجوم شہر ستمگراں نہ سنے گا تیری صدا کبھی
مری حسرتوں کو سخن سنا مری خواہشوں سے خطاب کر
زوہیب
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
سارہ نوید






