جہل کی کوکھ سے حکمت کی ادا مانگی ہے
عریاں تہذیب سے غیرت کی ردا مانگی ہے
یاں تو ہر موڑ پہ قبروں کے نشاں ملتے ہیں
موت کے شہر میں جینے کی دعا مانگی ہے
گریہ و ماتم ہے جہاں ہر گلی کوچے میں بپا
ہم نے اس شہر میں خوشیوں کی دعا مانگی ہے
شب میں خورشید کی تابش کے طلبگار ہیں ہم
ہم نے ظلمت سے اجالوں کی ضیاء مانگی ہے
دوست پھر دوست ہیں دشمن بھی نہ بھولے گا ہمیں
ہم نے سب ہی کے کئے خیر و جزاء مانگی ہے
جسکی قربت کو ترستا ہے زمانہ اکثر
ہم نے اس شخص کے سائے سے پناہ مانگی ہے
کتنا ناداں ہے اشہر اسکی حماقت دیکھو
موت کے داعی سے سانسوں کی بقاء مانگی ہے